لافانی  آوازیں :  برٹش پاکستانی ورثے کے تحفظ کا پراجیکٹ :     ٹیپ لیٹرز

 

کس طرح پرانی کیسٹس کی ایک بڑی تعداد پاکستانی تارکین وطن کی تاریخ اور زبانوں کی جانکاری کا ذریعہ بن گئی۔ ٹیپ لیٹرز پروجیکٹ کو بہت جلد گلاسگو،ایڈنبرا اور ڈنڈی میں ہونے والی نمائش میں پیش کیا جائے گاجس میں مقامی باسیوں کی کہانیاں دکھائیجائیں گی۔

از ڈیون میک کول اور ثمر جمال / عکاسی ساشا ڈیلمج

ہم سے دور آباد وہ عزیزجس کے پاس ایک فون کال کرنےکی بھی فرصت نہیں ہے آج کل اس سے  رابطے کے لیے ہم میں سے اکثر لوگ وائس نوٹس بھیجتے ہیں جو اینیمیٹڈ کہانیاں بن جاتے ہیں۔شاید یہ لگے کہ رابطے کا یہ طریقہ صرف ڈیجیٹل دور میں ہی ممکن ہوسکا لیکن یہ رابطے کا کوئی نیا طریقہ نہیں ہے۔   1960ء سے 1990ء کے دوران پاکستان اور برطانیہ میں آباد خاندان اپنی بات چیت کیسیٹ ٹیپس پر ریکارڈ کرکے ایک دوسرے کو بھیجاکرتے تھے۔پلاسٹک کیسز میں بند ان مقناطیسی ٹیپس میں ہجرت ،پیار محبت اور خسارے کی ذاتی کہانیاں محفوظ ہوتی تھیں۔

"       میری ڈارلنگ ،  مجھے بتاؤ کہ میں تمہار ے لیے کیا کروں؟  میرے آنسو میرے بس میں نہیں ہیں۔میری آواز کو سنتے ہوئے کیا تم ہنس رہی ہو یا     رو رہی  ہو؟ شاید میں اس پوری کیسٹ میں روتا رہوں لیکن پلیز  تم پریشان مت ہوجانا، اوکے۔۔۔ میری جان،میرے پاس ان آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ پلیز مجھے صرف دو منٹ دے دو، میں اپنے رونے پر قابو پاکر  ریکارڈنگ جاری رکھوں گا۔۔۔ "ْ(کلِک)

یہ اس ڈیجیٹائزڈ ٹیپ کا ایک اقتباس ہے جو اس وقت ٹیپ لیٹرز پروجیکٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے ۔الفاظ کے چناؤ ، آواز میں کمزوری اورعدم تحفظ ،             رِیل میں گھومنے والی ٹیپ کی خستہ آواز اور آخر میں بٹن دبانے سے پیدا ہونے والی بازگشت نے اس جذباتی لمحے کو وقت کی قید میں منجمد کرکے رکھ دیا ہے۔اگرآپ اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ آپ کہانی سنانے والے کے پہلو میں بیٹھے ہوں۔ 

ٹیپ لیٹرز پراجیکٹ کیا ہے ؟

ٹیپ لیٹرزکا آغازمانچیسٹر سے اس وقت ہوا تھاجب پراجیکٹ ڈائریکٹر واجد یسین اپنے مرحوم والد کےسامان سے وہ کیسیٹس تلاش کررہے تھے جن میں انہوں نے نعتیں (حمدیہ نذرانۂ عقیدت)ریکارڈکروائی تھیں۔مگر اس کے بجائے انہیں ایسی ٹیپس مل گئیں جن میں 1960ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں لیٹرز ریکارڈ کرکے پاکستان میں مقیم اپنے اہل خانہ کو بھیجے گئے تھے۔ ان  ٹیپس کولافانی اور یادگار بنانے کے لیے واجد یسین نے ٹیپ  لیٹرزجیسا پروجیکٹ شروع کردیا اورایسی مزید ٹیپس اورانہیں ریکارڈ کرنے والے افراد کی تلاش شروع کردی۔

 اس پروجیکٹ سے یہ پتا چلا کہ رابطوں کے اس طریق کار نے لوگوں کی داستانیں محفوظ کرلیں اورترک وطن کے طریقے دریافت کیے۔خاص طورپر یہ کیس ان ٹیپس سے متعلق ہے جو پوٹھوہاری زبان میں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ پوٹھوہاری ، شمالی پاکستان  میں آزاد کشمیرکے علاقے  میر پور میں بولی      جانے والی پنجابی کا ایک لہجہ ہے جوصرف زبانی بولی جانے والی ایک زبان ہے ۔  جنوب میں واقع کراچی جیسے شہروں میں زیادہ تراردو زبان بولی جاتی ہے۔

مئی 2023ء میں ٹیپ لیٹرز پروجیکٹ نےسرحد پار شمالی علاقوں کا رخ کر لیا ، تب سے ریسرچرز کو پولک شیلڈز سمیت پورے سکاٹ لینڈ سے یہ ٹیپس ملی ہیں ، ۔پولک شیلڈز وہ علاقہ ہے جہاں برطانیہ میں ایک بہت بڑی پاکستانی کمیونٹی آباد ہے ۔

جب  دی بولنگ گرین کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرتبسم نیامت (ٹیب) نے دیکھا کہ سکاٹ لینڈ میں ایک پروجیکٹ  کوارڈی نیٹرکی شروعات ہونے والی ہے تو اس نے فوری طورپراس موقع سے فائدہ اٹھایا۔گزشتہ سال مئی سے لے کر ٹیب اور اس کے ساتھیوں نے 15 ٹیپس دریافت کی ہیں اورسکاٹ لینڈ بھرسے  ایسے تقریبا  40 افراد کے انٹرویو کیے ہیں جنہوں نے ٹیپ لیٹرز کا استعمال کیا تھا۔

پروڈکشن کوآرڈینیٹر، ٹیب۔ ایان میک لیلن کی تصویر

 ٹیپ لیٹرز ہی کیوں ؟

ان میں سے جس ایک فرد کے ساتھ ٹیب نے کام کیا ہے اس کا نام شاہین اختر  (آنٹی شاہین) ہے۔ اس پروجیکٹ کے حوالےسے مزید جا نکاری  کے لیے ایک ٹھنڈی  سہ پہر کو ہم نےپولک شیلڈز میں واقع اس کے فلیٹ کا بھی دورہ کیا تھا۔ملاقات کی یقین دہانی حاصل کرلینے کے بعد ہم نے اس کے ہاں ٹوسٹ کے ساتھ چائے پی ۔  کمبلوں سے ڈھانپے ہوئے سرمئی صوفہ پر بیٹھی آنٹی شاہین نے اس حقیقت پرروشنی ڈالی کہ ایک ایسے ملک کی طرف ہجرت کرنے کا  مطلب کیا ہوتا ہے جہاں شاید ہی کچھ لوگ ہوں جو آپ کی مادری زبان سمجھتےہوں اورآپ بھی ان کی زبان نہ سمجھتے ہوں ۔ 

"  میری زندگی اس وقت شروع ہوئی جب میری بیٹی ثمینہ پیدا  ہوئی تھی۔ جب مجھے انگلش میں با ت  کرنے میں مشکل پیش آتی تومیری بیٹی ثمینہ میری ترجمانی کرتی تھی۔آج بھی جب میں کسی سے بات  کرتی ہوں تو مجھے یہی فکر ہوتی ہے کہ میں کوئی غلط بات نہ کرجاؤں ۔اس لیے میری کوشش ہوتی ہے کہ میں خاموش ہی رہوں۔ جب مجھے کسی کے ساتھ بات کرنےکی ضرورت محسوس ہو تو میں ثمینہ سے  ہی کہتی ہوں کہ میری جگہ وہ بات کرے ۔ کبھی کبھی مجھے ایسا بھی لگتا ہے کہ میں توشاید بھول ہی گئی ہوں کہ  میری آواز کیسی ہے۔ "

بہت سےدیگر شرکاء کی طرح آنٹی شاہین کو بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی تاریخ کےکسی ان کہےحصے کو یاد کررہی تھی ۔اس نے بتایا کہ " میں نے اس موضوع پر کبھی اتنا کھل کر بات نہیں کی کیونکہ کوئی اس بارے میں پوچھتا ہی نہیں۔  "

ٹیپ لیٹرز پروجیکٹ نے ہی یہ انکشاف کیا ہے کہ آپ کا تجربہ خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، ترک وطن سے متعلق کہانیاں اس قابل ہیں کہ انہیں دستاویزی  شکل میں ڈھالا جائے ۔یہ بات ایک ایسے دور میں اور بھی اہم لگتی ہے جب ترک وطن کی کہانیاں محض تحقیرآمیز یا قابل ستائش داستانیں بن کر رہ گئی ہیں۔ 

 ٹیب نے  یہ بھی بتایا کہ " برطانوی معاشرہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس ریکارڈز ہوں،ان کے پاس اپنی تاریخ موجود ہے اور وہ ہزاروں سال پیچھے تک اپنے آباؤاجداد کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ ہم (جنوبی ایشیائی )  لوگوں کے لیے یہ ایک مختلف بات ہے۔ ہم میں توکئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنے پڑدادا کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے کیونکہ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی ریکارڈ  ہی موجود نہیں ہے اور بہت سی وجوہات کی بنا پر ۔۔۔ ہمارے پاس اپنی ریکارڈ کی ہوئی تاریخ  ہی موجود نہیں ہے ۔"

ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو جب یہ ٹیپس بھیجی جاتی تھیں اس وقت ٹیکنالوجی بہت زیادہ نہیں تھی اور بین الاقوامی فون کالز بہت مہنگی ہوا کرتی تھیں۔جو لوگ بھی بھاری فون بل دینے کی سکت نہیں رکھتے تھے  انہیں گاؤں میں کسی دوسرے کا فون استعمال کرنا پڑتا تھا۔ یہ لوگ جو پردیس میں آباد اپنے پیاروں کی فون کالز کا طویل انتظار کرتے تھے ،کئی مرتبہ ان سے بات کرنے سے رہ جاتے۔اگر بمشکل فون کالز مل بھی جاتیں تو وہ بہت مختصر دورانیے کی ہوتی تھیں۔ تاہم پاکستانی تارکین وطن اپنے عزیزواقارب سے رابطے برقرار رکھنے کے لیے پرعزم تھے۔

کیسٹس ٹیپس نے انہیں رابطےکا یہ موقع فراہم کررکھا تھا جس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ لوگ کمزور اورغیرمحفوظ ہونے کے باوجودایک دوسرے سے بہت زیادہ مانوس بھی ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ کچھ دردناک اور آنکھیں کھول دینے والی ایسی ٹیپس بھی منظرعام پر آئیں جو بالکل ڈائریز پڑھنےکی طرح تھیں ۔

عاصم رفیق بھی اس پروجیکٹ کےشرکاء میں سے ایک ہیں، ان کا کہنا تھا کہ

"  اب تو وہ میری بیوی ہے مگراس وقت ( 1990 ء کی دہائی میں) جب ہم نے  اس کے ساتھ  فون پر بات کرنے کی کوشش کی تووہ واقعی اپنے احساسات کا اظہار نہیں کر سکتی تھی۔ ہمارے گھر میں ایک ٹیپ ریکارڈر موجود تھا۔    مجھے خیال آیا کہ میں اس کی ریکارڈنگ شروع کردوں ۔ شایداس طرح صورت حال کچھ آسان ہو جائے۔۔۔۔ میں یہ سوچ کر اس کے ساتھ بہت دھیمی آواز میں بات کیا کرتا تھا کہ شاید میرے بھائی بہنیں بھی چوری چھپے ہماری باتیں سن رہے ہیں۔ "

اپنے آسٹریلین طوطے مٹھو ( اردو میں جس کامطلب  میٹھا ہوتا ہے ) کی آوازوں کے شور میں آنٹی شاہین نے ہمیں بتا یا کہ کس طرح یہ ٹیپس ایک خاندانی معاملہ ہوا کرتی تھیں: " اگر ہمارے خاندان کے کچھ لوگ دوسرے گھروں میں مقیم  ہوتے تو ہم انہیں کہتے کہ ٹیپ سننے کے لیے آجاؤ ۔ ایسا لگتا تھا گویا کہ وہ ہمارے ساتھ ہی بیٹھے ہوں اور ہم ان کے ساتھ ایسے ہی باتیں کرتےتھے جیسے اس وقت میں آپ کے ساتھ بات کررہی ہوں۔"

جب آنٹی شاہین ،ان کی بیٹی اور نواسے نواسیوں کو ٹیپ پراجیکٹ کے لیے دعوت دی گئی تو وہ سب ٹیپس سننے کے لیے اسی طرح  مل کر بیٹھے تھے  جس طرح آنٹی شاہین  اپنےخاندان کے ہمراہ 1960ء کی دہائی میں سناکرتی تھی ۔  اس نے بتایا کہ کس طرح ہماری نوجوان نسل ہنسا کرتی تھی کیونکہ انہیں سمجھ ہی نہیں لگتی تھی کہ کیا کہا جا رہا تھا یا وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟

آنٹی شاہین نے بتایا کہ " آپ ان کی آواز سن کر ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا وہ ہمیں یاد کررہے ہیں ، کیا وہ ہماری آوازیں سن کر خوش ہورہے ہیں حالانکہ میں  ہمیشہ خود کو اتنا مضبوط نہیں سمجھتی کہ ماضی کی ان آوازوں کو سن سکوں ، تاہم یہی بہت ہے کہ آج بھی میرے پاس ان کی آوازیں محفوظ ہیں۔ "

تبسم اور آنٹی شاہین کی زندگی کے تجربات اوراس پروجیکٹ میں ان کی شمولیت کے بارے میں باتیں سننے کے بعد یہ چیز تو بالکل واضح ہو گئی تھی کہ ان کے لیے اس پروجیکٹ میں حصہ لینا کتنا اہم تھا۔

ٹیب نے انٹرویو کے دن کو ان الفاظ میں یاد کیا کہ "   آنٹی شاہین حیران تھی کہ  ہمارا انٹرویو ختم ہونے کے بعد اتفاق سے اس کی کہانی ایک  فطری  انداز میں مقبول ہوگئی ۔"میرے خیال میں اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ بطور تارکین وطن ہم  کہانی کی نوک پلک خود ہی سنوار لیتے ہیں۔ہم زندگی کے ہر پہلو میں یہی کچھ کرتے ہیں۔ہم اکثر اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کیا لوگ اسے سمجھ پائیں گے یا اس کو درست مان لیں گے۔اس نے مجھے بتایا کہ "  یہ ایک تھیراپی سیشن کی طرح تھا ۔ یہ جذبات کے لیے تسکین بخش تھا " 

ٹیپ لیٹر ز  میں منفرد بات کیا ہے ؟

ایسے سوالات پوچھنا، ان تجربات کو ترتیب سے پیش کرنا اور لوگوں میں کمیونٹی بن کر رہنے کے احساس کو دستاویزی شکل دینا ، اسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کے مترادف عمل ہے جو ایک  انمول کارنامہ ثابت ہو گا ۔

تبسم نے بتایا کہ " آپ کو یہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ کونسی بات لوگوں کے لیے رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ ہم نے خود کو کیسے مقامی رنگ میں ڈھالا۔ آپ  دیکھتے ہو کہ ہم  کس طرح اپنے بچوں خاص طورپر یہاں پہنچنے والے لوگوں کی پہلی نسل پراتنا انحصار کرتے ہیں اور وہ کس طرح اپنا یہ بزرگانہ کردار او ر ذمہ داریاں نبھائیں گے ۔ "

تبسم نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح  اس کی ماں کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اوراس نے مجھے تحفظ دینے کے لیے والدین والا کردارخوب نبھایا۔" میں نہیں جانتی کہ جنرل فزیشن کے استقبالیے پر بیٹھی لڑکیاں اس قدر دشمنی کیوں رکھتی تھیں،لیکن میری والدہ سے بہت پوچھ گوچھ ہوتی تھی۔میں اس کی باتوں کا ترجمہ کرکے بتاتی تھی۔ میں سمجھ گئی تھی کہ یہ عورت میری ماں کوایک انسان کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہی تھی۔یہ میری ماں کو ایک   امیگرنٹ یعنی تارک وطن کےطورپردیکھ رہی تھی اور اسی وجہ سے وہ اُس کے ساتھ اِس اندازمیں بات کررہی تھی۔زبان اور سماج کا حصہ ہونےکے احساس کے درمیان ایک ناگزیرسا دوطرفہ تعلق ہوتا ہے ۔مگر بدقسمتی سے بعض لوگ زبان کی رکاوٹ سے ہٹ کر آپ کی انسانیت کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔"

ان انٹرویوز نے بہت سے  لوگوں کے لیے ان تجربات  کی تصدیق کردی جنہوں نے اس میں حصہ لیا تھا اور اپنی کہانی سنائی تھی۔ تبسم کا کہنا تھا کہ"  تمام پاکستانی تارکین وطن کا تجربہ ایک جیسا نہیں تھا لیکن لوگوں کو اس دھرتی سے جڑنے کے لیے ایک جیسی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ " 

ٹیپ لیٹرز میں ہمارے ساتھ جس طرح کی کہانیاں شیئر کی گئی ہیں وہ ان لوگوں کے دلوں اورذہنوں میں جھانکنے کے لیے ایک کھڑکی کا کام کرتی ہیں جو اپنی زندگیاں یکسرتبدیل کرکے سیدھے مغربی ممالک  تک جا پہنچے تھے۔

لیکن تبسم جیسے شرکاء کو لگ رہا ہے کہ ان کا یہ کام  تو ماہرین آثار قدیمہ کے کام سے ملتا جلتا ہے جس میں اسےان دہائیوں پرانی کیسیٹس کا کھوج    لگا نا ہے جو ابھی تک وہاں موجود ہیں۔ جن لوگوں کوان تجربات کا سامنا کرنا پڑا تھا  وقت گزرنے کے ساتھ ان تک پہنچنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔

تبسم کا خیال ہے کہ جس طرح ان کے بڑے بزرگ اردو ،پنجابی یا پوٹھوہاری  بولتے تھے  ان کے مقابلے میں اب اس کے بچوں کے لیے انگلش بولنا کس قدر آسان ہے ۔ تبسم  کہتی ہیں کہ "  اب مجھے احساس ہورہا ہے کہ ہمارے لیے اپنے کلچر کو محفوظ رکھناکتنا اہم ہے اوراسے ہم آپ اپنی زبان کے ذریعے ہی زندہ رکھ سکتے ہیں۔"یہ پروجیکٹ جلد اپنےاختتام کو پہنچنے والا ہے لیکن انٹرویو  کرنے و الے لوگ کمیونٹیز کے ساتھ براہ راست بات چیت کرکے اپنے کام کومزید طول دیتے جارہے ہیں، اور جن لوگوں کے آخری انٹرویوز کیے گئے تھے انہیں تلاش کرنے کے لیے وہ زبانی رابطوں پر  انحصار کررہے ہیں۔

 ٹیپ لیٹرزکی اب ایک نئی اور بڑی نمائش موسم خزاں میں سکاٹ لینڈ کے تین شہروں میں شروع ہو رہی ہے۔ہمیں خوشی ہے کہ گلاسگو میں  ٹیپ لیٹرز کی میزبانی کا شرف ہمیں حاصل ہو رہا ہے اور اس کی نمائش 13 اکتوبرسے 31جنوری تک ٹرام وے پر گریٹر کووِن ہل کمیونٹی کینوس کی پہلی منزل پر منعقد ہو رہی ہے۔ 

 
Previous
Previous

Greater Govanhill Photography Group: Then & Now

Next
Next

Behind the Portrait: JR Ewan